۲۹ شهریور ۱۴۰۳ |۱۵ ربیع‌الاول ۱۴۴۶ | Sep 19, 2024
امام حسن عسکری علیه السلام

حوزہ/حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام پیغمبر اسلام، تاجدار انبیاء حضرت محمد مصطفٰی ﷺ کے گیارھویں چشم چراغ و جانشین اور سلسلۂ عصمت کی تیرھویں کڑی ہیں۔

تحریر: ڈاکٹر شجاعت حسین

حوزہ نیوز ایجنسی|

اللہ کی وحی کا ہے مضمون عسکریؑ
کن کا ہے جو اثر وہ فیکن عسکریؑ
جو قلب دیں میں بہتا ہے وہ خوں عسکریؑ
اعمالٍ مصطفٰی کا ہے مسنون عسکریؑ
یہ دینٍ حق میں دائمی فصلٍ بہار ہے
اس کا ہر ایک لفظٍ زباں حق شعار ہے
حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام پیغمبر اسلام، تاجدار انبیاء حضرت محمد مصطفٰی ﷺ کے گیارھویں چشم چراغ و جانشین اور سلسلۂ عصمت کی تیرھویں کڑی ہیں۔ آپ کے والدٍ ماجد حضرت امام علی نقی علیہ السلام ہیں۔ آپ بھی اپنے آباؤ اجداد کی طرح اعلمٍ زمانہ اور افضل کائنات تھے۔ (شیخ مفید، ارشاد، صفحہ 502)؛ علامہ محمد بن طلحہ شافعی کا بیان ہے کہ آپؑ کا ایک اہم شرف یہ بھی ہے کہ امام مہدی علیہ السلام آپؑ ہی کے اکلوتے فرزند ہیں جنہیں پروردگار عالم نے طویل عمر عطا کی اور جن کا جب ظہور ہوگا تب وہ دنیا میں عدل و انصاف قائم کریں گے (مطالب السؤل، صفحہ 292)۔
امام حسن عسکری علیہ السلام ابن امام علی نقی علیہ السلام کی زبان گل بداماں، نطق رشک سخنداں، طبیعت نور فروزاں و افتخار شبستاں، کلام تمثیل قرآں، حُسن عمل زندہ جاوداں، امام المتقین و ختم رسالت کے نگین، زبان آب کوثر سے شیرین، لہجہ وقار انگبین اور مالک خلد برین ہیں۔
امام حسن عسکری علیہ السلام کاشف رموز خدا، مظہر اوصاف کبریاء، آیہ صدق و صفا، گلشن توحید کی ضیا، نورعین رسولؐ خدا دلبند مرتضٰی اور خنکیٍ قلب فاطمہؑ ہیں۔ خلق محمدؐ کی آن، عصمت فاطمہؑ کی شان، علم مرتضٰی کی جان، علم عالم غیب کا نشاں، حق و صداقت کی صدا، کشتیٍ نجات کا بادبان اور نظام الٰہی کے نمائندے ہیں۔
آج پوری دنیا میں حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی قمری کیلنڈر کے مطابق 1286ویں اور انگریزی کیلنڈر کے مطابق 1250 ویں یومٍ شہادت منائی جارہی ہے۔ ہر ملک، شہر، قرعیہ، قصبہ، محلہ، ہر امام بارگاہ و عزاخانہ، اور ہر گھر میں سوز خوانی، مرثیہ خوانی، نوحہ خوانی، سینہ زنی اور مجلس برپا ہو رہے ہیں۔ یکم ربیع الاول 260 ہجری کو متعمد نے زہر دلوایا اور امام حسن عسکری علیہ السلام 8 ربیع الاوّل 260 ہجری بروز جمعہ بوقت نماز صبح خلعت حیات ظاہری اُتار کر بطرف ملک جاودانی رحلت فرما گئے۔ (صوائق محرقہ، صفحہ 124؛ انوار الحسینیہ، جلد 3، صفحہ 56) آپؑ اپنے پدر بزرگوار کی روضۂ اقدس کے قریب سامراء میں دفن ہوئے جہاں آپؑ کا روضۂ مبارک آج بھی زیارت گاہٍ خلائق بنا ہوا ہے۔
عزاداران امام حسن عسکریؑ آشنا ہیں کہ خالق کائنات اپنے نمائندوں کو نورٍ علم و صداقت سے نوازتا ہے۔ اسی طرح ہر امام اپنے دور کا علمی مرکز اور مرجع ہوتا ہے۔ اسی لیے آج بھی مکتب اہلبیت علیہم السلام دیگر مکاتب فکر سے نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ علوم دورٍ حاضر ہو یا گزشتہ کے، آپ دیکھیں، چاہے وہ علوم جدید سائنس، ٹیکنالوجی، ریاضیات، فلکیات، طب و حکمت، علم کلام و فلسفہ، تفسیر و علم حدیث وغیرہ تمام علوم میں سب سے ممتاز نظر آتا ہے۔ در حقیقت مکتب اہلبیتؑ کی بقا، قوت کشش اور دوام کی وجہ علمی بنیادوں پر مبنی ہے۔ اس مکتب کی نورانیت علم ہی ہے۔
اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو دیکھیں گے کہ آئمہ اطہار علیہم السلام کے چاہنے اور ماننے والوں نے چراغ علم کو روشن رکھنے کے لیے ہر دور میں یعنی ظالم حکمرانوں کے باوجود علم کو فروغ دینا اور آئندہ نسلوں کے لیے اپنی تخلیقات میں علم کو قید کر دیا ان میں یہ سبھی اسم گرامی فہرست کی زینت ہیں: محمد الشریف الرضی، شیخ مفید، شیخ صدوق، شیخ طوسی، شیخ طوسی، علامہ محقق حلی، علامہ مجلسی، شیخ کلینی، علامہ امینی، ابوالقاسم خوئ، لفط اللہ صفی گلپائگانی، تقی بحجت، فاضل لنکرانی، عبد العزیز الحکیم، محمد بہشتی، محمد حسین طباطبائی، حسین بروجردی، شہید مطہری، رہبر کبیر امام خمینی، رہبر معظم آیتہ اللہ سید علی خامنہ ای، اور آیتہ اللہ العظمٰی سید حسینی سیستانی۔
لیکن اس بات سے قطعی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ہندوستان تحریری و تحقیقی میدان میں کہیں پر نظر نہیں آتا ہے۔ اس میں کئی عوامل ہیں جس میں سر فہرست منبر افروز ہونے والے علماء کرام و ذاکرین عظام میں تعلیمی معیار میں فقدان، حصول علم میں عدم دلچسپی، معاشی بحران، کتب خانہ کا دستیاب نہ ہونا، حوالہ جات کتابوں کا نہ ہونا، کتب بینی سے دوریاں، تحریری صلاحیتوں پر توجہ نہ دینا، تحقیق کرنے کے لئے گائڈ (سوپر وائزر) کا نہ ہونا اور معاشی مدد سے محروم ہونا۔ حالانکہ فنٍ خطابت میں شہرت کے حامل علماء و ذاکرین موجود ہیں۔ محرم الحرام کا چاند نمودار ہوتے ہی ماہرین خطابت یورپ، امریکہ اور افریقہ میں کنٹریکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوکر فخر محسوس کرتے ہیں۔ کاش لفظ "اقراء" کا نزول و فلسفہ سمجھ جاتے۔۔۔المیہ!
امام حسن عسکریؑ نے اسلامی اصول و قوانین اور الٰہی علوم کی سربلندی و سرفرازی کے لیے ہر دم کوشاں رہے اور علمی چراغ روشن کیئے۔ علماء کرام، محدثین، اور محققین کی متفقہ رائے ہے کہ اٹھارہ ہزار تشنگانٍ علم نے امام کے حضور میں زانو ادب تہہ کیا اور علم سے فیضیاب ہوئے۔ آج بھی علماء اور فقہا علوم آل محمد ﷺ کی پاسبانی اور تالیف اور تدوین میں مشغول ہیں جیسا کہ مندرجہ بالا پیراگراف میں راقم الحروف نے قارئین کرام کے لیے تحریر کی ہے۔ شیعوں میں علوم الٰہی کو رائج کرکے ان میں علم، حکمت، عقل و شعور کے ذریعے افضلیت حاصل کروانا مقصد مقصود ہے۔ امام حسن عسکریؑ کی پوری توجہ علم و معرفت کی اشاعت، اسلامی فکر و نظریات کو مستحکم کرنا تھی۔ ہم امام کی فکر پر کتنا عملٍ پیراں ہیں، محاسبہ پر تدقیق کی ضرورت ہے۔
ایک کامیاب سیاستدان ہونے کے لئے علم کا ہونا لازمی ہے۔ امام عسکریؑ نے اسلام کے سیاسی نظام میں حصہ لیا۔ سیاسی نظام میں حصہ لینے کی وجہ طاغوتی نظامٍ حکومت کا مقابلہ کر کے ظالموں کے ظلم کی مخالفت اور مظلوموں کی نصرت کر سکیں اور اس کی استبدادی حکومت اور ظالم حکمرانوں کو اسلامی اقتدار کا مذاق اڑانے سے روکا جا سکے۔ انسانیت کی دفاع اور ظالم حکمران سے مقابلہ اور ان مقاصد کے حصول کے لیے سخت ترین حالات کا سامنا کیا۔ اس کے لیے آپؑ کئی دفعہ قید کئے گئے۔ کئی مرتبہ آپؑ کے قتل کی شازشیں رچی گئیں۔ آپؑ کو شہر کے ایک قید خانے سے دوسرے قید خانے میں منتقل کیا گیا۔ عباسی خلفاء کا ایسا اقدام اس لیے تھا تاکہ امامؑ کے چاہنے والوں سے جدا کر کے عوامی طاقت سے امامؑ کو محروم رکھا جا سکے۔ عباسی حکومت امامؑ کی سیاسی اور فکری کوششوں کو ناکام کرنا چاہتی تھی۔
سیاسی بصیرت کا واقعہ قابل ذکر ہے کہ جعفر حلبی کا بیان ہے کہ ہم کچھ لوگ محلہ عسکری میں امام کا انتظار کر رہے تھے کہ اتنے میں امام کی جانب سے ایک نوشتہ آیا جو آپ کا خط، خود دست مبارک سے تحریر شدہ تھا۔ خبردار تم میں سے کوئی بھی مجھے سلام نہ کرے اور نہ ہی مجھے کوئی اشارہ کرے کیونکہ تمھاری زندگی محفوظ نہیں رہے گی۔ آپ غور کریں کہ اس واقعہ سے ظار ہوتا ہے کہ ظالم حکام کی جاسوسی کا نظام کتنا چاک و چو بند اور پختہ تھا۔ تھوڑی سی غفلت قتل کا سبب بن جاتی۔ یہاں تک کہ اظہار محبت کرنا جرم تھا۔
امام عسکریؑ کی سیاسی بصیرت اور تعلیم کے لیے یہ بھی واقعہ مفید ذکر ہے۔ ابو ہاشم جعفری، داؤد بن اسود سے نقل ہے۔ ایک دن حضرت امام عسکریؑ نے مجھے بلایا۔ مجھے ایک گول سی لکڑی دی۔ آپؑ نے فرمایا عمری کے پاس لے جاؤ۔ راستے میں مجھے ایک خچر سوار شقا ملا اور اس نے میرا راستہ روکا تو راستے کو صاف کرنے کے لیے خچر کو مارا، لکڑی ٹوٹ گئی، لکڑی کے اندر کچھ خطوط تھے۔ جلدی سے ٹوٹی ہوئی لکڑی کو آستین میں چھپا لیا اور چل پڑا۔ منزل مقصود تک پہنچا تو عیسیٰ نے میرا استقبال کیا اور کہنے لگا امام نے پوچھا ہے تم نے خچر کو کیوں مارا تھا جس کی وجہ سے لکڑی ٹوٹ گئی؟ میں نے کہا چونکہ میرے علم میں نہیں تھا کہ اس لکڑی کے اندر کوئی چیز ہے۔ امام نے فرمایا آخر ایسا کام کیوں کرتے ہو جس کی وجہ سے عذر خواہی کرنا پڑے۔ دوبارہ ایسی غلطی مت کرنا یاد رکھو! جب بھی تمھیں کوئی بُڑا بھلا کہے تو اس کی پروا نہ کرنا اور اپنے کام سے کام رکھو کیونکہ تمھیں معلوم ہے کہ ہمارے لیے حالات سازگار نہیں ہیں۔ لہٰذا اپنے کام کو بڑی ہوشیاری اور ظرافت سے انجام دو۔ تمھارے متعلق ہمیں سب باتیں معلوم ہو جاتی ہیں۔
اس وقوعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام کی منظم سیاسی مہم تھی کہ جس کے ذریعے لوگوں کے فکر و شعور کو بیدار اور حکام کے خفیہ مظالم کی نقاب کشائی کی جا سکے۔ علاوہ ازیں امام نے حساس ذمہ داری کا درس دیا اور فرمایا مقدس اہداف کے سلسلے میں لوگوں کی چہ میگوئیاں اور نکتہ چینیوں کی طرف متوجہ نہ ہوں اور دلبرداشتہ نہ ہوں بلکہ الٰہی مشن کی تگ و دو کے لیے مصروف عمل رہیں۔ امام حسن عسکریؑ نے فرمایا چونکہ زمانے کے طاغوت تمھارے اذہان کو منتشر کرنے کے لیے طرح طرح کے منصوبے بناتے ہیں تاکہ پرواز فکر منجمد ہو اور انہیں الجھا کے رکھ دو کہ انہیں صحیح صورت حال کی آگاہی نہ ہو سکے۔ لوگوں کی گفتگو پر توجہ نہ دو۔ عبرت یہ ہے کہ فریضہ کی انجام دہی اور احساس ذمہ داری کس قدر اہم ہے۔ امامؑ نے یہ بھی تاکید فرمائی کہ اپنی زندگی میں اپنے افعال و کردار پر کڑی نظر رکھو۔ جو کام کرنا ہو غور و فکر کر انجام دو۔ فکر و شعور سے کرنا۔ ایک انسان کامل کی مانند زندگی بسر کرو۔ اپنی پوری قوت کے ساتھ مقابلہ کرو۔ اپنے ماننے والوں کو مکمل حوصلہ دیکر نہایت صبر و استقامت کے ساتھ اپنے مقدس اہداف کی جانب گامزن رہو۔ سیاست دیانتداری سے کرو۔
امامؑ کے فرمان و سبق پر چلتے ہوئے رہبر کبیر و بابائے انقلاب اسلامی جمہوریہ ایران، آیت اللہ روح اللہ امام خمینی رحہ نے سیاسی بصیرت سے ایران میں انقلاب برپا کیا اور شاہ پہلوی کی ظالم حکومت کو اُکھار پھیکا۔ قارئین کرام غور کریں، جاپان کا وزیر اعظم امریکہ کے صدر، ڈونالڈ ٹرمپ کے خط کے ہمراہ رہبر معظم آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای حفظ اللہ کے پاس آیا اور وہ خط دینا چاہا تو رہبر معظم نے تاریخی بات کہی کہ وہ اس لائق نہیں کہ اس کا خط لیا جائے۔ علاوہ ازیں، آیت اللہ سید الحسینی سیستانی نے شیعہ اور سنی کو متحد کر دہشت گرد، دائش کو عراق سے مار بھگایا اور سید حسن نصراللہ کی سیاسی بصیرت انتہا کو ہے کہ اسرائیل کو شکست دینے کے ساتھ ساتھ اپنی خوف کے سائے میں رکھے ہوئے ہیں۔
باوجود یہ کہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی عمر بہت مختصر ہے، صرف اٹھائیس برس مگر اس محدود اور مشکلات سے بھری ہوئی زندگی میں بھی آپ کے علمی فیوض کے دریا، سیاسی بصیرت اور اخلاقی دروس سے بڑے بڑے بلند پایہ کو سیراب ہونے کا موقع دیا۔ تبلیغ دین اور اسلام و انسانیت کا فروغ ان کا مقصد زیست ہوتا رہا۔ ان کا بڑھتا ہوا روحانی فیض اور علمی مرجعیت لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ حق و صداقت اور عدل و انصاف ان کا خوگر تھا۔ یہی وجہ ہے کہ عباسی حکمرانوں کو آپ کی شخصیت ناقابل ُبرداشت ہو گئی۔ امام حسن عسکری علیہ السلام نے ان حکمرانوں کے ظلم کو برداشت کیا۔ حکمرانوں کے نام ہیں: واثق، متوکل، مستنصر، مستعین، معتز باللہ، مہدی باللہ و معتمد (چودہ ستارے، صفحہ 534-536)۔ یہ سبھی ملعون نے امامؑ کو اذیتیں پہنچانے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑا۔
امام عسکریؑ کی حیات طیبہ کے دوران متعدد واقعات پیش ہوئے جن میں قحط، درندوں کی سجدہ ریزی، موت کی تاریخ و وقت کی پیشن گوئیاں، لوگوں کی بھلائی و مدد اور آپؑ کی مظلومیت کی وجہ سے سبھی لوگوں کے دلوں میں آپؑ کی عزت، احترام، عظمت، وقعت و محبت جاگزیں ہو چکی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپؑ کی شہادت کی خبر پھیلتے ہی ہر گھر سے رونے کی آوازیں آنے لگیں۔ ہر دل میں اضطراب کی لہریں دوڑنے لگیں۔ آہ و بکا سے سامراء کی گلیاں قیامت کا منظر پیش کرنے لگیں۔ (جلاء العیون، صفحہ 297) سامرہ میں ہلچل مچ گئی۔ ہر طرف رونے پیٹنے کا شور بلند ہو گیا۔ بازار میں ہڑتال ہوگئی۔ دکانیں بند، تمام بنی ہاشم اور حاکمان قصاص، ارکان عدالت، اعیانٍ حکومت، منشی، قاضی اور عائمہ خلائق آپؑ کے جنازے میں شرکت کے لئے دوڑ پڑے۔ (نورالابصار، صفحہ 168)
امام حسن عسکری علیہ السلام کا جنازہ تزک و احتشام کے ساتھ اٹھایا گیا اور اس مقام پر رکھا گیا جس جگہ نماز پڑھائی جاتی تھی۔ جعفر تواب نماز جنازہ پڑھانے کے لئے آگے بڑھے۔ آپ تکبیرۃ الاحرام نہ کہنے پائے تھے کہ محمد بن حسن القائم المہدی بر آمد ہوکر سامنے آگئے اور آپ نے اپنے چچا کو ہٹا کر نماز جنازہ پڑھائی۔ (جلاء العیون، صفحہ 292) اس کے بعد آپ کو اپنے پدر بزرگوار کے روضہء مبارک، سامراء، العسکری مسجد میں دفن کیا گیا۔
جلتے تھے ان کے علم سے سب دشمنانٍ دیں
بغض و عناد قلب میں رکھتے تھے اہل کیں
مثلٍ سیاہ بخت، دل حاکمٍ لعیں
حاکم نے قید کر دیا گھر میں امام دیں
پرواہ آب کی تھی، غذا سے نہ کام تھا
لب پر حسنؑ کے خالقٍ یزداں کا نام تھا

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .